انسان روز اول سے ھی سکون کی تلاش میں ھے۔ اس سکون کی تلاش اسے بے سکونی کے گڑھوں میں دھکیل رھی ھے۔اسی سکون کی تلاش میں بت تراشے گئے اور ھمارے جد امجد ابراھیم علیہ السلام نے ان بتوں سے بیزار ھوکر ھجرت فرمائی۔ انسان اسی سکون کی تلاش میں نت نئے بتوں کو ترشتہ ھے اور پھر ان کی پرستش کا آغاز کرتا رھا۔ ان بتوں میں سے اک طاقتور بت دولت ھے اس بت نے آجتک نہ جانے کتنے انسانوں سے اپنی پرستش کروائی اور انھیں ضلالت کے گڑھے میں مدفون کر دیا۔ جن کو دولت نہ ملی وہ بے سکون رھے اور جن کو مل گئی ان کا کیا انجام ھوا۔ موسیٰ کے کیا نہ تھا ۔۔۔۔دولت سٹیٹس ھر چیز ھی تو تھی مگر انھوں نے ھجرت کی۔ اللہ نے صرف ابراھیم ھی نییں ھجرت کروائی بلکہ ان کی اھلیہ سے بھی ھجرت کروائی۔ اپنی بڑھاپے کی اولاد اپنے سہارے اپنے مستقبل اسماعیل کے گلے پر ابرھیم سے چھری کیوں چلوائی گئی۔۔۔۔یہ بھی غور طلب ھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ھجرت کیوں کی۔ ان تمام اصحاب کریمین نے اپنی جائز چیزوں کو چھوڑا۔ آج ھم ناجائز چیزوں کو بھی چھوڑنے کے لیئے تیار نہیں۔ انھوں نے بڑی بڑی ھجرتیں کیں آج ھم چھوٹی چھوٹی ھجرتوں کا بھی حوصلہ نہیں رکھتے۔

فیس بک پہ چوبیس چوبیس گھنٹے سرف ھوتے ھیں صرف اس لئے کہ شاید کوئی سکون میسر آجائے مگر بے سکونی میں مسلسل اضافہ ھو رھا۔ فیس بک, ٹویٹر, یوٹیوب,ٹک ٹوک پہ لوگ ساری ساری رات محو رھتے ھیں۔ یہ وقت گزاری کا سبب تو بن گئے ھیں لیکن سکون مہیا نہ کر سکے۔ آج کا انسان ان سے ھجرت بھی نہیں کر سکتا۔ اللہ پاک نے سکون تو نماز اور صبر میں رکھا۔ قلبی اطمینان تو اللہ کے ذکر میں ھے مگر انسان اسے سوشل ایپس میں تلاش کر رھا۔
آج ٹیکنالوجی بھی اک خدا بن چکا ھے۔ انسان حصول ٹیکنالوجی کو ھی حصول سکون سمجھ بیٹھا ھے۔